A New Turn as Lawyers Release Explosive, Secretly Recorded Tape

عافیہ صدیقی کے اغواء کے متعلق انکشافات پر مبنی خفیہ ٹیپ

(بشکریہ : کاؤنٹر پنچ ڈاٹ کام  http://www.counterpunch.org/brittain02142011.html )

اسلام آباد:پاکستانی خاتون  ڈاکٹرعافیہ صدیقی کے کراچی سے پاکستانی خفیہادارے کی جانب سے اغواء، امریکا کو حوالگی اور دوران قید گزرنے والے مختلفمراحل پرمبنی انکشاف انگیز آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئی ہے۔آڈیوٹیپ کے مطابقعافیہ کااغواء سندھ پولیس کے کائونٹر ٹیررازم سیل کے اس وقت کے سربرا ہعمران شوکت کی جانب سے عمل میں آیا تھا۔

امریکا کی جانب سے افغانستان میں فوجیوں پر فائرنگ کےالزام میں86برس کی سزاپانے والی پاکستانی خاتون سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وکیل رینا فوسٹر سے منسوب جاری کی جانے والی چار گھنٹے کی آڈیو ٹیپ میں عافیہ صدیقی کی گرفتاری،پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں امریکا کو حوالگی کے مختلف مراحل پرمبنی ریکارڈ شدہ گفتگوموجودہے۔

یاد رہے کہ امریکا کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوان کےتین بچوں سمیت اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ امریکا پر حملوں کے منصوبے اوردھماکہ خیز مواد پر مبنی کیمیکل اپنے بیگ میں لئے گھوم رہی تھیں۔ایم آئی ٹیکی ماہر خاتون کو 2003ء میں کراچی کے علاقے گلشن اقبال سے اغواء کے بعد5برس تک پس پردہ رکھا گیا۔2008ء میں انہیں بگرام ائیر بیس پر امریکی فوجیوں پرحملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔اس جرم کے تحت عافیہ کونیویارک کی عدالتنےامریکی فوجیوں کو قتل کرنے کی مبینہ کوشش پر طویل سزا سنائی۔

قبل ازیں پاکستانی حکومت پانچ برس تک عافیہ صدیقی کی گرفتاری یا امریکاحوالگی کا انکار کرتی رہی تھی لیکن انہیں منظر عام پر لائے جانے اورامریکیعدالت میں مقدمہ شروع ہونے کے بعد20لاکھ ڈالر امریکی وکیلوں پرخرچ کر چکیہے۔۔اس وقت بھی پاکستانی حکومت نے میڈیا میں آنے والی ان رپورٹس کی نفی کی تھی جن کے تحت پاکستانی خفیہ ادارے انٹر سروسزانٹیلی جنس کو عافیہ کیگرفتاری اور امریکا حوالے کرنے کاذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔جب کہ امریکیخفیہ ادارے ایف بی آئی نے بھی عافیہ کی موجودتی کی تردید کی تھی۔
عافیہ صدیقی کے اغواء،امریکی حوالگی اور دیگر تفصیلات پر مبنی آڈیو ٹیپسامنے آنے کواس کیس کے تناظر میں دھماکہ خیز پیش رفت قرار دیتے ہوئے ماہرینکاکہناہےکہ یہ بہت سارے مصنوعی طور پر اپنائے گئے موقف کاخاتمہ کر دے گا۔جسسے سب سے زیادہ متاثر امریکی موقف اور اس کے نظام انصاف کے تحت کیا جانےوالا فیصلہ ہوگا۔

سامنے آنے والی آڈیو ٹیپ کے پس پردہ بچوں کی آوازوں کی موجودگی بتاتی ہے کہاسے کسی معمول کی صورتحال میں ریکارڈ کیا گیا ہے۔عافیہ صدیقی کا مقدمہ لڑنےوالے وکلاء میں سے ایک کی جانب سے ریلیز کردہ گفتگو ایسے نامعلوم ذریعے نےانہیں دی ہے جس کے مطابق”عافیہ صدیقی کی حوالگی میں پاکستانی کائونٹرٹیررازم کے ملوث ہونے کاسن کر وہ حیران رہ گیا،اسے سامنے لانے کےلئے گفتگو کے دوسرے روزوہ ریکارڈنگ ٹیپ لے کر مذکورہ مقام پر پہنچااور طویل گفتگو کوریکارڈ کر لیا”۔

پاکستانی صوبہ سندھ کی پولیس میں سپریٹنڈنٹ آف پولیس کے عہدے پر موجودعمران شوکت کی گفتگو پر مبنی آڈیو ٹیپ دی نیوز ٹرائب کو موصول ہوئیہے۔اردو،پنجابی اورانگریزی زبانوں میں کی گئی گفتگو پر مبنی ٹیپ کا کلدورانیہ4گھنٹے35منٹ کاہے۔

ٹیپ کے مطابق عمران شوکت [جو آڈیو میں دوسری آوازہیں]کہتے ہیں”وہ کراچی میںتعینات اور صوبہ سندھ کے کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے طور پر تعیناتتھے۔ذیل میں آڈیو ٹیپ کے چند ٹرانسکرائپڈ  حصے دئیے جا رہے ہیں۔

پہلی آواز[ریکارڈ کرنے والا]کیا آپ نے اسے گرفتار کیا؟

دوسری آواز[عمران شوکت]ہاں میں نے اسے گرفتار کیاتھا،وہ حجاب اور چشمہ پہنے
ہوئے تھی،گرفتاری کے وقت وہ اسلام آباد جا رہی تھی جب۔۔۔

پہلی آواز:گرفتاری کے بعدکیا ہوا،آئی ایس آئی نے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا؟

دوسری آواز: جی ہاں ہم نے انہیں آئی ایس آئی کے حوالے کر دیا

پہلی آواز: آئی ایس آئی یا کسی اورادارے کو

دوسری آواز: آئی ایس آئی،ہم نے ان کے حوالے کر دیا

اس وقت ایک تربیتی کورس کےسلسلے میں امریکہ میں موجودعمران شوکت نے عافیہصدیقی کو “دبلی پتلی” اور”نفسیاتی” قرار دیتے ہوئے کہا”وہ القاعدہ کی اہمشخصیت نہیں چھوٹا موٹاکردار”ہو سکتی ہے۔

گزشتہ برس موسم بہار میں ریکارڈ کی گئی گفتگو کے ایک حصے میں جو عافیہصدیقی کی بیٹی مریم کی ان کی پاکستان حوالگی کے حوالے سے ہے کہا گیا ہے

پہلی آواز: مریم گزشتہ روز گھر والوں کو مل گئی

دوسری آواز: وہ گھرپرہے

پہلی آواز: ہاں وہ گھر پرہے،وہ صرف انگلش بول سکتی ہے۔وہ قید میں تھی،وہسات سے آٹھ برس کی ہے،وہ صرف انگریزی بول سکتی ہے۔

نامعلوم مردانہ آواز: 8سال کی

پہلی آواز: ہاں،بچے جیل میں تھے جہاں ان سے امریکی لہجے کی انگلش ہی بولی
جاتی تھی

نامعلوم مردانہ آواز: کیا وہ گھر پہنچ گئی

پہلی آواز: ہاں وہ گھر پہنچ گئی ہے

دوسری آواز:ہاں لے آئے

پہلی آواز: کیا واقعی

دوسری آواز:پانچ چھ ماہ پہلے

پہلی آواز: وہ تو آج یا کل گھر پہنچی ہے

دوسری آواز:میرے آنے سے پہلے ہی یہ ہو چکا تھا

پہلی آواز: میں نے خبر پڑھی ہے کل، آج یا شاید کل رات کو

پہلی آواز: یہ دو یا تین ماہ پرانی بات ہے

گفتگو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید مریم گھر پہنچ گئی ہے جس پر بات کی جا رہی ہے،لیکن عافیہ صدیقی کے بچوں کی وکیل ٹینا فوسٹر کاکہنا ہے کہ اس سے مرادمریم کی اہلخانہ کو نہیں بلکہ پاکستان پہنچنا ہے۔

دریں اثناء عمران شوکت نے اپنی گفتگو میں یہ بھی ذکر کیا کہ پاکستانی پولیس اور خفیہ ادارہ کیسے لوگوں کو غائب کرتا ہے۔اورزیرحراست افراد کو کیسےاستعمال کیا جاتا ہے۔پاکستانی میڈیا رپورٹس اوروار آن ٹیررکے دوران غائب ہونے والے افراد کی بازیابی کےلئے کام کنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ کاکہناہےکہ”اس وقت بھی5سو افراد غائب ہیں”۔جب کہ سندھ اور بلوچستان کی
پاکستان سے علیحدگی کےلئے لڑنے والےاس کے علاوہ ہیں۔آڈیو ٹیب میں ایک مرحلےپر عمران شوکت کاکہناہے”یہ ڈبل ڈیلنگ کاکارنامہ ہے،جس کے تحت انہیں دائیں دکھا کربائیں نکال دیا جاتا ہے”۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی القاعدہ سے وابستگی،امریکی فوجیوں پر حملے اور امریکاپردہشت گردی کی کارروائیوں کی پلاننگ کرنے جیسی باتیں گزشتہ8برسوں سےزیرگردش ہیں تا ہم پہلی بار اس کارروائی میں ملوث اعلی سطحی ذریعے کی سامنےآنے والی آڈیو ٹیپ نے متعدد حقائق کی تصدیق کر دی ہے۔

اس موقع پر یہ بھی واضح ہوا ہے کہ عافیہ صدیقی کو خفیہ حراست کے دوران5برستک 1996اور98ء میں پیدا ہونے والے دونوں بڑے بچوں احمد اور مریم سے الگ سیلمیں رکھا گیا تھا جب کہ چھ ماہ کے سلیمان کو ان کے ساتھ رکھا گیا تھا جو مبینہ طور پرانتقال کر گیا ہے۔

قبل ازیں سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق عافیہ صدیقی کا تعلق ایک ایسےگھرانے سے ہے جو انتہائی پڑھا لکھا اور اس کے متعدد افراد امریکہ میں مقیمتھے۔عافیہ صدیقی نے اپنی تعلیم کا بڑاحصہ یونیورسٹی آف ٹیکساس سے مکمل کیاجہاں انہوں نے ایم آئی ٹی کے تحت بائیالوجی میں گریجویشن کی،جب کہ بعد میں
cognitive neuroscience میں پی ایچ ڈی کی۔اپنے تعلیمی مراحلے کے ساتھ بوسٹن میں مسلمان کیمونٹی کی سماجی سرگرمیوں میں بڑح چڑح کر حصہ لیا۔جس میں بوسنیا کی جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے خاندانوں کےلئے فنڈز جمع کرنے کی غرض سے کیک فروخت کرنااور دیگر فنڈ ریزنگ سرگرمیوں میں شرکت شامل تھی۔

اسی دوران ان کی شادی پاکستانی نژاد ڈاکٹر امجد سے ہوئی جن سے ان کے دو بچے ہیں۔ ٹیلیفون پر ہونے والے نکاح سے شروع ہونے والی ازدواجی زندگی اس وقت ختمہوئی جب ایک روز عافیہ صدیقی اپنے منہ پر زخم لئے بوسٹن کے مقامی ہسپتال آئیں۔اس موقع پر ان کے شوہر ڈاکٹر امجد نے یہ تسلیم کیا کہ “عافیہ ان کی جانب سے اپنے اوپر پھینکی گئی ایک بوتل سے زخمی ہو کر ہسپتال گئی
تھی”۔2001ء میں وہ واپس پاکستان آئیں جہاں ان کے والد کا انتقال ہوا،اس وقت عافیہ صدیقی کے ہاں تیسرے بچے کی ولادت متوقع تھی۔اس موقع پر ڈاکٹر امجد نے عافیہ سے علیحدگی اختیارکرکے فورا دوسری شادی کر لی۔اس سے قبل ڈاکٹر امجدامریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کی جانب سے ایک تفتیش کا نشانہ بن چکے تھے جس
میں ان سے انٹرنیٹ پر بوسٹن سے خریدی گئی چند اشیاء کے متعلق پوچھ گچھ کی گئی تھی۔جس کا انہوںن نے جواب دیا تھا کہ یہ شکار کےلئے خریدی گئی کچھ اشیاء ہیں۔ڈاکٹر امجد نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اس موقع پر وہ گرفتار نہین ہوئے تاہم وہ اور ان کی اہلیہ مشکوک ہو گئے تھے۔

2003ء میں ایف بی آئی کی جانب سے عالمی سطح پر یہ اعلان نشر کیا گیاتھا کہعافیہ صدیقی اور ان کے شوہر پوچھ گچھ کےلئے مطلوب ہیں۔جس کے چند ہفتوں بعد عافیہ صدیقی غائب کر دی گئی تھیں۔جب کہ ان کے سابق شوہر ڈاکٹر امجد سے پاکستانی اور امریکہ اہلکاروں نے چار گھنٹوں سے زائد انٹرویو کیا تھا۔بعدازاں ڈاکٹر امجد نے خفیہ اداروں سے منسب یہ بات کہی تھی کہ ان کی اہلیہ روپوش ہو گئی ہیں جب کہ ان کے بچوں کا کوئی علم نہیں ہے۔ایک مرحلے پر
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپنے ڈرائیورکے ہمراہ2005ء میں انہوں نے عافیہ صدیقی کوکراچی میں ایک ٹیکسی میں سواری کرتے ہوئے دیکھا تھا۔

2008 میں عافیہ صدیقی کے منظر عام پر لائے جانے کے بعد پاکستانی میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد خان کا کہنا تھا کہ “عافیہ ایک انتہا پسندہے،یہی اس کے غائب ہونے کی وجہ ہو سکتی ہے”۔
ایف بی آئی کی جانب سے اس موقع پریہ کہا گیا تھا کہ القاعدہ کے حوالے سےانتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں عافیہ صدیقی کی شمولیت 9/11حملوں کےمبینہ ماسٹرمائنڈخالد شیخ محمد کے بھتیجے عمر بلوچ سے ان کی شادی ہے۔تاہم عافیہ صدیقی کے اہل خانہ نے ان اطلاعات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔اس موقعپراقوام متحد کی جانب سے انہیں سوڈان سے القاعدہ کےلئے ہیرے اسمگل کرنے میں
بھی ملوث قرار دیاگیا تاہم عافیہ صدیقی کی وکیل Elaine Sharp نے عدالت میںیہ موقف اختیار کیا کہ “عافیہ کی انہی دنوں بوسٹن میں موجودگی ثابت شدہہے”۔اس کے بعد یہ الزامات کسی حد تک مشکوک ہوئے تھے۔

پانچ برس تک کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ عافیہ صدیقی اور ان کے بچےکہاں ہیں لیکن اس حوالے کچھ نہ کچھ افوائیں گردش میں آتی رہیں۔ بگرام جیل کے بعض سابق قیدیوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے عافیہ صدیقی کو بگرام جیل میں دیکھا تھا جبکہ وکی لیکس کے مطابق امریکی حکام اس بات کو ماننے سےانکار کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کے سینئر صحافی نجیب احمد جو کہ اس اسٹوری کو پانچ سال تک کور کرتے رہے ہیں اپنے ایک ذرائع جو کہ عافیہ کو گرفتار کرنے والی ٹیم کا حصہ تھا کےحوالے سے پتایا تھا کہ  ایف بی آئی کے ساتھ جوائنٹ آپریشن کیا گیا ۔

جولائی 2008 کے وسط میں ایک پاکستانی وکیل نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے اسلام آباد میں درخواست دائر کی تو چند ہی دن کے بعد عافیہ صدیقی دوبارہ افغانستان کے صوبہ غزنی سے منظر عام پر آئیں اور اس دفعہ ان پر الزام تھا کہ وہ ایک ایسا بیگ لے کر جا رہی تھی جس میں کیمیائی اور بائیلوجیکل ہتھیار بنانے کے طریقہ کار اور امریکی حکام کو بڑا جانی نقصان  پنچانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔اور اس کے بعد عافیہ صدیقی پرغزنی کے ہی پولیس اسٹیشن میں ایک امریکی اہلکار پر فائرنگ اور اسے بری طرح زخمی کرنے کا الزام  بھی عائد کیا گیا۔

اس کے بعد عافیہ صدیقی امریکی فوجی اور ایف بی آئی ایجنٹ پر حملے کے جرم کا نیویارک  میں ٹرائل کیا گیا لیکن وہاں ان پر القاعدہ سے تعلق اور دہشت گردی کا کوئی الزام نہیں تھا۔

عافیہ صدیقی کو فراہم کی گئی قانونی ماہرین کی ٹیموں میں سے بھی بعض اچھی ٹیم نہیں تھیں۔ عافیہ صدیقی کو کورٹ کی جانب سے فراہم کیے جانےوالے وکیلLiz Fink تھے جنہوں نے بعد میں معذرت کر لی تھی، عافیہ صدیقی کو کورٹ کی جانب سے دوسری قانونی ٹیم فراہم کی گئی جس کی قیادت Dawn Cardiکر رہے تھے جبکہ پاکستانی حکومت کی جانب سے تعینات کی گئی وکلا کی ٹیم کی قیادت LindaMoreno کر رہے تھے۔

یہاں تک کہ عافیہ صدیقی پر قائم فائرنگ کا کیس عجائبات اور تضادات سے بھرا ہوا تھا جن میں عافیہ صدیق پر گن اٹھانے کا کوئی طبعی ثبوت کا نہ ہونا،گولوں کے خول کا نہ ہونا، کمرے کی دیواروں پر گولیاں لگنے کے نشانات کا نہ ہونا شامل تھا تاہم دوسری بندوق کے نشانات موجود تھے جس سے عافیہ صدیقی زخمی ہوئیں تھیں۔ ڈیفنس کونسل کی جانب سے افغانستان کے 2دورے بھی کیے گئے جس میں فرانزک شواہد اکھٹے کی گئے جن کے مطابق ڈی این اے سمیت کوئی
ایسا ثبوت نہیں تھا کہ عافیہ صدیقی نے گن کو چھوا ہو ۔

ڈاکٹر صدیقی کے وکلاء کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے اور وہ مستقل کورٹ میںان کو ہٹانے کے اظہار کرتی رہیں ۔ کئی وکلاء ایسے بھی تھے جو صرف ان کو کورٹ میں نظر آئے۔

Linda Moreno کے مطابق یہ بات کافی پریشان کن تھی کہ عافیہ صدیقی کا کسی وکیل پر اعتبار نہیں تھا۔

وکلاء کی جانب سے سختی سے منع کرنے کے باوجود ڈاکٹر صدیقی نے خود کورٹ کو کہا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیااور امریکہ کے حوالے گیا ۔انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ان کے بچوں کو بھی خفیہ جیل میں تشدد کا نشانہبنایا گیا۔دوسری جانب امریکی حکومت کی جانب سے ان الزامات کی کبھی بھی
تردید نہیں کی گئی۔


انٹر نیشنل جسٹس نیٹ ورک نے اردو، انگلش، پنجابی میں کچھ ویڈیو ، آڈیو ٹیپس بھی ریلیز کی ہیں جن کے لنک مندرجہ ذیل ہیں

 here and,  here*

here.
اور چار گھنٹے کی گفتگو یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتی ہے